۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
مولوی محمد تبریز

حوزہ/ امیر کائنات حضرت علی علیہ السلام نے اپنی تمام عمر خدمت خلق ، لوگوں کو فائدہ پہونچانے ، اور انہیں آخرت کے دردناک عذاب سے بچانے کی راہ میں صرف کردی اور یقیناان کی خدمات کو مختصر مقالے میں بیان کرنا سمندر کو کوزے میں سمونے کے برابر ہے جو ناممکن ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی

تحریر: مولوی محمد تبریز،متعلم جامعہ امامیہ تنظیم المکاتب

خدمت خلق کی اہمیت

خدمت خلق ایسا عمل ہے جو تما م انسانوں کی نظر میں ایک خاص اہمیت رکھتاہے اور خدمت خلق کرنے والے کا بلاتفریق مذہب و ملت تما م عقلاء عالم کی نظر میں ایک خاص مقام ہے ۔انبیاء خصوصا پیغمبر اکرم ﷺ اور آئمہ علیہم السلام کی تعلیمات کا مرکز بھی دو ہی چیزیں ہیں: ایک اللہ کی عبادت اور دوسرےاس کے بندوں کی خدمت ۔
خدا وند عالم مقصد بعثت پیغمبرﷺ بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ (اللہ) وہی ہے جس نے بے پڑھے لکھے عربوں میں انہیں میں سے ایک کورسول بنا کربھیجا جو ان لوگوں کو اس (اللہ) کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کے نفوس کا تزکیہ کرتا ہے۔(سورہ جمعہ آیت ۲)
اس آیت میں مقصد بعثت تعلیم و تربیت کو قرار دیا گیا۔ کیوں کہ جاہل انسان صرف خود کو نہیں بلکہ پورے سماج کو نقصان پہونچاتا ہے اورعالم کے علم سے دوسرے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس کے اچھے اثرات اگلی نسلوں تک جاتے ہیں۔اور عالم کا علم بھی اس وقت تک کسی کام نہیں آتا جب تک اس کے ساتھ تربیت نہ ہو ۔اسی لئے خدا نےتعلیم کے ساتھ تربیت کا بھی انتظام کی۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : خدا کی نظر میں سب سے اچھا عمل بھوکوں کو کھانا کھلانا اور پیاسوں کو سیراب کرنا ہے ۔ اس ذات کی قسم جس کی قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ وہ شخص مجھ پر ایمان نہیں لایا کہ جو خود تو شکم سیر ہو کر سو جاۓاور اس کا پڑوسی بھوکا سو جاۓ۔(سفینۃ البحار ج ۱)
امام علی علیہ السلام نے مالک اشتررحمۃ اللہ علیہ کو کمزور طبقہ کے افراد کے بارے میں نصیحت کرتے ہوۓ فرمایا: آخری طبقہ ضرورت مندوں اور بے سہاروں کا ہے جن کی ضروریات کو پورا کرنا اور ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے۔ اللہ کے یہاں ہر ایک کے لئےوسعت ہے اور حاکم پر ان کےکچھ حقوق ہیں۔(نہج البلاغہ مکتوب ۵۳)
لیکن اس نکتہ کی طرف بھی اشارہ ضروری ہے کہ خدمت خلق کامطلب صرف یہ نہیں ہے کہ بھوکے کو کھانا کھلادیا جاۓ،پیاسے کو سیراب کر دیا جاۓیا سردی گرمی سے بچنے کے انتظامات کردئےجائیں بلکہ خدمت خلق کا اصل مطلب یہ ہے کہ انسانوںکے لۓ وہ کام کۓ جائیں جو انہیں دنیا و آخرت میں فائدہ پہونچاۓاور انہیں دنیاوی تکالیف اور اخروی عذاب سے بھی بچاۓ۔ اس لۓ کہ دنیاوی زندگی تو صرف چند روزہ ہے اور پھر اس کے بعد آخرت کے مراحل ہیں اس بات کی طرف قرآن مجید نے بھی توجہ دلائی ہے تعاونو ا علی البر والتقویٰ ولا تعاونو اعلیٰ الاثم والعدوان نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہوں اور تعدی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔(سورہ مائدہ ایت ۲)
امیر کائنات حضرت علی علیہ السلام نے اپنی تمام عمر خدمت خلق ، لوگوں کو فائدہ پہونچانے ، اور انہیں آخرت کے دردناک عذاب سے بچانے کی راہ میں صرف کردی اور یقیناان کی خدمات کو مختصر مقالے میں بیان کرنا سمندر کو کوزے میں سمونے کے برابر ہے جو ناممکن ہے۔ لیکن پھر بھی اپنی بساط بھر ان کی خدمات کے چند نمونے پیش خدمت ہیں :

(۱) دعوت اسلام اور ہدایت خلق
اسلام تمام انسانوں کےلئے مکمل نظام حیات ہے۔ اسلام نے انسان کی زندگی کے ہر پہلو کے لئے راہ ِ عمل بیان کی۔ اور اسلام کے احکام پرعمل کرکے انسان دنیا میں ایک خوشحال اور بہتر زندگی گذار سکتا ہے، اور آخرت کے ہولناک عذاب سے نجات پا سکتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اللہ کے انعام و اکرام کا بھی مستحق ہوگا ۔اسلام نے انسان کی زندگی کے تمام مسائل کا حل پیش کیا اور آج دنیا کے تمام مسائل کا حل صرف اسلام ہی کے پاس ہے ۔
لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینا اور راہ ِ الٰہی کی جانب بلانا مخلوق کی سب سے بڑی خدمت ہے اگر دنیا اس پیغام کو قبول کر لیتی اور نظام اسلام کی پابند ہو جاتی تو نہ دنیا میںنہ کوئی بھوکا رہتا کہ اسے کھانا کھلایا جائے اور نہ کوئی پیاسارہتاکہ اسے سیراب کیا جائے اور نہ کوئی بے لباس ہوتا کہ اسے کپڑا دیا جائے نہ کوئی پریشان حال ہوتا کہ اس کی مشکلات کو دور کیا جاۓ خدا نے اسی اہم فریضہ کے لئے انبیا ء اور ائمہ علیہم السلام کو بھیجا تھا ۔
امیر اکائنات حضرت علی علیہ ا لسلام نے اپنی تمام عمر اسی راہ میںوقف کر دی اور ہر طریقے سے اس عظیم فریضے کو انجام دیا اور ہمیشہ اسلام کی راہ میں پیش پیش رہے ۔
آپ ؑنے تبلیغ اسلام کے روز اوّل ہی جب رسول اکرمﷺ نے اعلان ِ رسالت کیا آپ نے اسی روز سے مدد اور نصرت کا وعدہ کیا اس وقت آپ کی عمر صرف دس برس تھی اس کمسنی کے عالم میں آپ نے نصرت کا وعدہ کیا اور اپنی جان و مال اورآل واولاد سے ہرگام پر رسول ﷺ کی مدد کی ، ہر قدم پر رسول ﷺ کی جان کی حفاظت کی اور ہر وقت رسول ﷺ کے ساتھ کھڑے رہے ۔
اس راہ میں زحمتوں اور مصیبتوں کا سامنا کیا ، جنگیں لڑیں ، اور اپنی جان جوکھم میں ڈال کر اسلام کے پرچم کو سر بلند کیا اسی راہ میں آپ کی ہمسر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا پہلو شکستہ ہوا او ر اتنے مصائب ڈھائے گئے کہ آپ نے دار دنیا کوخیر باد کہہ دیا آپ نے صرف اسلام کی نصرت و حفاطت میں یہ سب مصائب برداشت کئے اور بالآخر آپ بھی اسی راہ میں مسجد کوفہ میںشہید کر دئے گئے ۔

(۲)قیام عدل و انصاف
عدل معاشرہ کی اہم ٖ ضروریات میں سے ہے سماج کو ہر وقت ایک عادل حاکم کی ضرورت ہے تاکہ معاشرہ منظم رہ سکے اور طاقتور لوگ کمزور و ناتواں پر ظلم و ستم نہ کر سکیں۔ اگر حاکم عادل ہو تو لوگوں کی جان و مال ، عزت و آبرو محفوظ رہتی ہے۔
امیر الموؑمنین حضرت علی علیہ السلام نے جس وقت لوگوں سے بیعت لی تو آپ نے خلافت قبول کرنےکا سبب بیان کرتے ہوئے فرمایا: اگر خدا علماء سے یہ عہد نہ لیا ہوتاکہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر چین سے نہ بیٹھنا تو میں خلافت کی رسی کو چھوڑ دیتا اور اس سے الگ ہو جاتا ۔(نہج البلاغہ خطبہ ۳)
آپ نے اپنے نظام عدل کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: خدا کی قسم اگر عثمان کے بے جا بیت المال کے مصرف اور اقرباء پروری کا مال مجھے اس حالت میں بھی ملے کہ اسے کسی عورت کا مہر بنا دیا گیا ہے یا اس سے کسی کنیز کو خرید لیا گیا ہے تو بھی میں اس مال کو اس کے اصل مالک تک پہنچا دوں گا۔اس لٔے کہ انصاف میں بڑی وسعت ہے اور جس کے لٔے انصاف ہی تنگ ہو ظلم تو اس کے لٔے اور بھی تنگ ہوگا۔( نہج البلاغہ خطبہ ۱۵)
یہ تھا حضرت علی علیہ السلام کا عدل و انصاف کہ کسی بے گناہ پر ظلم نہ ہو ،کسی بے سہارا پر ستم نہ ہو، کوئی یتیم نہ ستایا جائےاور کوئی غریب و مسکین پریشان نہ رہےطاقتور کمزور کا حق نہ چھیننے پائے ۔اور یہ عدل صرف مسلمان افراد سے مخصوص نہیں تھا بلکہ بلا تفریق مذہب و ملت اس میں سب شامل ہیں
جب معاویہ کے لشکر نے سنان بن عوف کی قیادت میں انبار پر حملہ کیا اورلوگوں کے گھروں میں گھس کر سازو سامان لوٹا۔ اس دوران مسلمان اورذمی عورتوں کے زیورات تک چھین لئےجب آپ کی اس حادثہ کی خبر ہوئی آپ نے خطبہ دیتے ہوۓ ارشاد فرمایا: مجھے خبر ملی ہے کہ دشمن کے سپاہی مسلم اور ذمی عورتون کی پیر کی پازیب،ہاتھ کے کنگن اور گلوبند تک چھین کر لےگئے اس کے باوجود نہ ان کے کسی سپاہی کو زخم آیا اور کسی کا ایک قطرہ خون بہا۔ اس صورت حال کے بعد اگر کوئی مسلم صدمہ سے مر جائےتو قابل ملامت نہیں بلکہ میرے نزدیک حق بجانب ہے۔
اس کے بعد آپ لوگوں کو جہاد کی دعوت دیتے ہیں مگر جب کوئی ظلم کے دفع کے لٔے تیار نہیں ہواتوآپ فرماتے ہیں : تم نے میرے دل کو خون کر دیا ہے ،میرے سینہ کو غیظ و غضب سے بھر دیا اور نفس نفس مجھے غم و اندوہ کےگھونٹ پلائے ہیں۔
یہ تھا اس مرد عظیم کا عدل کہ اس کی نظر میں وہ انسان شرم سے مر جانے کے لائق ہے جس کے سامنے عورت پر ظلم ہو اور وہ اس کا دفاع نہ کر سکے۔اور یہی عدل علی علیہ السلام کی شہادت کی وجہ بنا، حضرت علی علیہ السلام کائنات کی وہ واحد ذات ہیںجسے اس ظلم کےنہیں بلکہ اس کے عدل کی وجہ سے مارا گیا۔

(۳)غرباءپروری اور ہمدردی
امیر کائنات حضرت علی علیہ السلام غریب و نادار طبقہ کا خاص خیال رکھتےاور ہمیشہ ان کے ضروریات کو پورا کرنے کےلئے کوشاں رہتے۔ آپ کی یہی کوشش رہتی کہ کوئی بھی انسان بھوکا نہ رہےاور بے سہاروں تک ان کا رزق پہنچتا رہےاوریہی آپ کا طرز عمل تھا۔
روایات سے پتہ چلتا ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام رات کی تاریکی میں غریب و نادار افراد کے پاس جاتےانہیں خبر تک نہیں ہوتی تھی اور آپ ان کا کھانا ان کے سرہانے رکھ دیا کرتے تھےاور اس طریقہ سے آپ تمام ضرورت مندوں تک کھانا پہونچایا کرتے تھے۔آپ کی شہادت کےبعد لوگوں کو پتہ چلا کہ یہ امداد آپ کرتے تھے اور جب ان لوگوں کو آپ کی شہادت کا علم ہو گیا تو انہوں نےکسی سے کھانے کے بارے میں نہیں پوچھا۔
آپ کی شہادت کے بعد جب امام حسن اور امام حسین علیہماالسلام آپ کو دفن کرکے واپس لوٹ رہے تھے راستے میںایک کھنڈر سے کسی کی کراہنے کی آواز سنی۔دونوں حضرات کھنڈر کی طرف گٔےکیا دیکھا کہ ایک اندھا بیکس و ناچار پڑا ہوا ہے، پوچھا بھائی تیرا کیا حال ہے؟ اس نے کہا کیا پوچھتے ہو ایک بندہ خدا برابر مجھے روزی پہونچایا کرتا تھا۔ آج تین دن ہوگئےہیں کہ وہ نہیںآیا ہے۔ بھوک سے بے دم ہورہا ہوں۔ آپ نے پوچھا اس بندہ خدا کانام کیا تھا ؟ اس نے کہا کہ اس نے نام نہیں بتایا میں جب بھی پوچھتا وہ یہی کہتا کہ ایک فقیر فقیر کے پاس بیٹھا ہے ایک غریب غریب کے پہلو میں بیٹھا ہے۔ یہ سننا تھا کہ دونوں شہزادے رونے لگےاور فرمایا کہ وہ ہمارےبابا علی ابن ابی طالب علیہ السلام تھےتین دن قبل مسجد کوفہ میں ان کے سر پرضربت لگی اور آج ان کا انتقال ہو گیا۔

آپ غریب و نادار طبقہ کے بارے مالک اشتر کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: پسماندہ طبقہ کے بارےمیں اللہ سے ڈرو کہ یہ مساکین، محتاج و فقراء اور معذور افراد ہیں۔ جن کا کوئی سہارا نہیں ہے۔ اس طبقہ میں مانگنے والے بھی ہیںاور غیرت دار بھی ہیں جو دست سوال دراز نہیں کرتےلہٰذا اللہ نے ان کا جو حق تم پر فرض کیا ہے اسے ادا کرو اور ان کےلئے بیت المال اور ارض غنیمت کے غلات میں سے ایک حصہ مخصوص کر دوکہ دورافتادہ کا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا قریب والوں کا حق ہے اور تمہیں سب کا ذمہ دار بنایا گیا ہےلہٰذا خبردار کہیں غرور تکبر تمہیں ان کی طرف سے غافل نہ کر دے۔
یہ فرمان کسی خاص فرقہ سے مخصوص نہیں ہے اس میں سب شامل تھے۔ آپ کی نظرمیں سب برابر تھے۔آپ یہ نہیں دیکھتے کہ کس مکتب فکر سے تعلق ہے بلکہ یہ دیکھتے کہ اس کی ضرورت کیا ہے۔ ایک نصرا نی کا بہت مشہور واقعہ ہے کہ آپ اپنے دور حکومت میں ایک راستہ سے گذر رہے تھے۔آپ نے دیکھا ایک نابینا آدمی ایک کنارے بیٹھا بھیک مانگ رہا ہے ۔ آپ نے اس کے آس پاس جمع افراد سے پوچھا یہ کون ہے؟ کسی نے جواب دیا کہ یہودی ہے۔ آپ نے سوال کیا کہ جب یہ جوان تھا تو کیا کوئی کام کرتا تھا ؟ لوگوں نے مثبت جواب دیا۔آپ نے بیت المال سے اس کی ضروریات پورا کرنے کا حکم دیا اور اس کا و ظیفہ معین کر دیا ۔
اسی لئے محققین کو یہ جملہ لکھنا پڑا کہ علی علیہ السلام کی وہ واحد حکومت تھی جس میں ایک بھی آدمی بھوکا نہیں سویا۔

(۴) انفاق اور مالی خدمات
امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام انفا ق میں مشہور زمانہ تھےآپ کی سخاوت زباں زد خاص و عام تھی ۔آپ کی سخاوت کے قصیدے جا بجا قرآن مجید نے بھی پڑھے۔ ابو بصیر امام صادق علیہ السلام سے سوال کرتے ہیںــــ: الذین ینفقون اموالھم ابتغاء مرضات اللہ (جو لوگ اپنے اموال کو رضاۓ خدا کے لٔے خرچ کرتے ہیں(سورہ بقرا ایت ۲۶۵) کس کی شان میں نازل ہوئی آپ نے جواب دیا: امیر المؤمنین حضرت علی ابن ابی طالب کی شان میں نازل ہوئی کہ جو اللہ کی راہ میں انفاق کرنے والوں میں سب سے افضل ہیں۔(بحار الانوار جلد ۴۱ ص ۳۵)
امام رضا علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺنے ارشاد فرمایا الذین ینفقون اموالھم بالیل والنھارسرا و علانیۃ (جو لوگ اپنے مال کو راہ خدا میں رات و دن،خاموشی سے اور اعلانیہ طور سے خرچ کرتے ہیں (سورہ بقرا آیت ۲۷۴)حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔(بحار الانوار جلد ۴۱ ص ۳۵)
جناب ابوذر غفاری رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ آیۂ ولایت( إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ ‎﴿٥٥﴾‏ ایمان والوں تمہارا ولی بس اللہ ہے اور اس کا رسول ہے اور وہ صاحبان ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰۃ دیتے ہیںسورہ ،مائدہ آیت ۵۵)بھی امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی(تفسیر نمونہ جلد ۴ ص ۴۲۲)
ابن ابی الحدید آپ کے بارے میں لکھتے ہیں : امام علی علیہ السلام دنوں میں روزہ رکھتے تھے اور اپنے دن بھر کی خوراک دوسروں کو دے دیا کرتے تھے آپ ایک یہودی کے باغ میں آبیاری کرتے تھے جس سے آ پ کے ہاتھ میں چھالے پڑ جاتے تھے لیکن آ پ اپنی اجرت ضرورت مندوں پر خرچ کر دیا کرتے تھے ۔
آپ کے انفاق کا طریقہ یہ تھا کہ حارث ہمدانی بیان کرتے ہیںمیں رات میں مو لائے کائنات کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔میںنے امام علیہ السلام سے حاجت بیان کرنے کی اجازت چاہی۔ مولاۓ کائنات نے سوال کیا کہ کیا تم مجھے اس ضرورت کا اہل سمجھتے ہو۔حارث نے مثبت جواب دیا ۔ امیر المؤمنین اٹھے اور آپ نے چراغ کو بجھا دیا اور کہا کہ میں نے چراغ اس لٔے غل کر دیا تا کہ جب تم حاجت طلب کرو تو میں تمہارے چہرے پر شرمندگی کے آثار نہ دیکھوں۔ اس کےبعد آپ نے حارث سے کہا کہ اپنی ضرورت بیان کرو اور آپ نے حارث کی حاجت پوری کی۔(بحار الانوار جلد ۴۱ ص ۳۶)

(۵) پینے اور کھیتی کے لئے پانی کا نتظام
عربستان کے علاقوں میں پانی کی شدید قلت تھی وہاں پانی کاانتطام ایک اہم خدمت ہے امیر کائنات حضرت علی علیہ السلام نے ایسے مقامات پر پانی کا انتظام کیا تاکہ لوگ سیراب ہو سکیں اور اپنی فصلوں میں سینچائی کرکے فصلیں اگا سکیں ۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : رسول اکرم ﷺ نے کچھ زمین حضرت علی علیہ السلام کے اختیا ر میں دی تھیں امام ؑ نے اس جگہ ایک چشمہ جاری کیا جس سے پانی اس طرح نکل رہا تھا جیسے ذبح کرتے وقت اونٹ کی گردن سے خون کا فوارہ بہتا ہے آپ نے اس چشمہ کا نام (ینبع) رکھا ۔
مکہ کی راہ میں ایک جگہ جعرانہ ہے جہاں پانی کی شدید قلت تھی آپ نے وہاں ایک چشمہ جاری کیا اور ایک آدمی سے کہا کہ اعلان کردو کہ یہ پانی خانۂ خدا کے زائرین اور مسافروں کے لئے ہے اسے کوئی فروخت کرنے اور میراث میںدینے کا حق نہیں رکھتا اور جو اسے بیچے اس پر اللہ ، ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت ہو ۔اس جگہ کو ـــــ (بئر علی)کہا جاتا ہے۔(وسائل الشیعہ ج ۱۳ ص ۳۰۳)

(۶) باغبانی اور کھیتی کرنا
آپ کے اہم مشاغل میں سے ایک کام کھیتی کرنا تھا جس سے آپ مخلوق کی خدمت کرتے تھے امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :امیر المؤمنین علیہ السلام کدال چلاتے تھے اور فصلیں اگاتے تھے ۔
ایک شخص نے امام علی علیہ السلام کی خدمت میں ایک وسق (تقریبا ۱۸۰کلو گرام )خرمے کا بیج دیکھتا ہے اور سوال کرتا ہے مولا آپ ان خرمے کے بیجوں کا کیا کریں گے مولاۓ کائنات علیہ السلام جواب دیتے ہیں انشاء اللہ ان سےخرمے کے ایک ہزار درخت اگیں گے ۔آگے راوی بیان کرتا ہے کہ اس کے بعدآپ نے ان سب بیجوں کو زمین کے حوالے کردیا اور ان تمام بیجوں سے درخت اگے آپ نے باغ تیار کیا اور خدمت خلق کے لئے وقف کر دیا ۔(بحار الانوار ج ۴۱ ص ۳۴)

(۷) غلاموں کو آزاد کرنا
غلاموں کو آزاد کرنے پر اسلام نے بہت زیادہ زور دیا ہے اور بہت سے واجبات کے ترک پر بھی کفارہ غلام کا آزاد کرنا رکھا ہے پیغمبر اکرم ﷺ فرماتے ہیں : جو شخص بھی کسی بندۂ مومن کو آزاد کر ےگا خدا وند عالم غلام کے عضو کےبدلے اس کے اعضاء کو جہنم سے آزاد کر ے گا ۔(روضۃ الکافی ج ۲ ص ۱۸۱)
امیر کائنات حضرت علی علیہ السلام اپنی محنت کی کمائی سے غلاموں کو خریدتے تھے اور انہیں زیور ِ تعلیم سے آراستہ کرکے راہ ِ خدا میں آزاد کردیتے تھے ۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : امام علی علیہ السلام نے اپنی ہاتھوں کی کمائی سےایک ہزار غلام آزاد کئے ۔(روضۃ الکافی ج ۲ ص ۱۸۱)

تبصرہ ارسال

You are replying to: .